14-Apr-2022-تحریری مقابلہ
غزل
ہوئے جو عشق میں کامل وہ باطل ہو نہیں سکتے
کسی کی محبتوں کے تو وہ قاتل ہو نہیں سکتے
خوابوں کے سہارے تو عمر کٹنا نا ممکں ہے
کہ رستے محض رستے ہیں یہ منزل ہو نہیں سکتے
وفائوں کا سلا سب کو یہاں معلوم ہے جاناں
وفائوں کے تو بدلے تم بھی حاصل ہو نہیں سکتے
زمانا چاہے جتنا بھی بدلنا ہے بدل جائے
کہ صحرا تپتے رہنے ہیں یہ ساحل ہو نہیں سکتے
ستارے تو ستارے ہیں چمکنا ان کی فطرت ہے
کسی کے غم میں بجھ کر یہ تو شامل ہو نہیں سکتے
کہ جب تک سانس چلنی ہے انہیں بڑھتے ہی رہنا ہے
کہ صدمے جیتے جی میری یہ مکمل ہو نہیں سکتے
بچا کچھ بھی نہیں باقی ملا جو بھی وہ کھویا ہے
تمہارے دور جانے سے اب ہم پاگل ہو نہیں سکتے
فرشتے تو فرشتے ہیں مگر کچھ ایسے انساں ہیں
جو بسمل ہو نہیں سکتے جو گھایل ہو نہیں سکتے
ہمیں اپنے حسن کے تم قصے بیشک سبھی بتلاؤ
وفا کے بن تو ہم تیرے بھی کاہل ہو نہیں سکتے .
سجاد علی سجاد
Fareha Sameen
14-Apr-2022 08:16 PM
👏👏👏
Reply